مورخ اہل حدیث ، مولانا محمد اسحاق بھٹی علیہ الرحمۃ کی وفات کے بعد اخبارات و رسائل میں بیشتر تعزیتی مضامین لکھے گئےجن میں انکی گوناگوں خدمات پر روشنی ڈالی گئی۔ کچھ دن پہلے ان کی سوانح پر ایک مستقل کتاب ’’ ارمغان مولانا محمد اسحاق بھٹی‘‘ دیکھنے کا اتفاق ہوا، جس کے مطالعہ سے دل کو انتہائی رنج پہنچا، کیونکہ مولف موصوف نے سوانح مرتب کرتے ہوئے پوری کتاب میںبھٹی صاحب مرحوم کی بجائے ’’ اپنا آپ ‘‘ ڈالا ہوا تھا۔ حالانکہ ’’کسی بھی شخصیت کا تعارف اس کےہر پہلو کو اجاگر کرنے سے ہی ہمیشہ سو فیصد ہوتا ہے۔ کیا مولانا محمد اسحاق بھٹی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھ یہ بے انصافی نہ تھی، اور نہ ہوگی کہ اگر ہم ان کا سوانحی کام کریں اور ان کی زندگی کے ہر پہلو کو اجاگر کریں تو ایک ایسے پہلو کو پش پشت ڈال دیں یا گناہ کبیرہ سمجھ کر ان کی زندگی سے ہی نکال دیں ، جس پہلو کو ہم نے خود پیٹھ کی ہوئی ہے۔ اگر تصوف اتنا بڑا گناہ ہی تھا تو بھٹی صاحب مرحوم نے اپنی تمام کتابوں میں جگہ جگہ کشف‘ کرامات‘ بیعت ‘ الہام‘ تصوف ‘مرشد‘ مرید وغیرہ وغیرہ کا لفظ کیوں استعمال کیا اور ان شخصیات کا پورا کا پورا باب تصوف کے ساتھ کیوںمزین کیا؟ حالانکہ تصوف ایک ایسی حقیقت ہے جس کی اہمیت کوسمجھتے ہوئے ہر دور کے اسلاف اہل حدیث نے اپنی زندگی کو اس کے مطابق ڈھالا۔انصاف پسند مورخین و سوانح نگار حضرات نے جب بھی ان اسلاف کے حالات زندگی پر قلم کو جنبش دی تو انکے خلوص و للٰہیت ، عشق و معرفت ، کشف و کرامات، الہام و بشارات جیسے روشن پہلوؤں کو بھی تحریر کیا، تاکہ اخلاف کیلئے یہی واقعات ایمان میں تازگی اور روحانی ترقی کا باعث بنیں۔ جبکہ مولانا اسحاق بھٹی مرحوم کے سوانح نگار نے ایسا کوئی کارنامہ سرانجام دینے کی بجائے ساڑھے نو سو صفحات کو صرف انہی باتوں سے بھر دیا کہ مولانا اسحاق بھٹی مرحوم ، سلطان القلم تھے،قلم کے مزدور تھے، انداز تحریر شائستہ تھا، کلام میں تسلسل تھا، فلاں کتاب کےاتنے صفحات، فلاں ادارے میں اتنی ڈیوٹی۔ مانا کہ یہ اسلوب بھی سوانح نگاری کا حصہ ہے، مگر اس کی مثال تو ایسے ہی ہے جیسے مدارس میں آج کل حدیث پڑھاتے وقت ساری صلاحیت اسی پہ صرف کر دی جاتی ہے کہ دیکھو اس کا صرف کیا ہے ، اس کا نحو کیا ہے ،یہ فاعل ہے ، یہ مفعول ہے ( اس کا انکار نہیں) لیکن سارا زور اسی پر لگا دینا ، اور حدیث شریف کے جو اصل معارف اور اصل خزانے ہیں ، ان پر توجہ ہی نہ کرنا کہاں کی دانش مندی ہے؟ جو ہیرے اور جواہرات احادیث میں چھپے ہوئےہوتے ہیں ، اور جن سمندروں کو کوزے میں بند کیا گیا ہوتا ہے ، نہ انکو خود سمجھا جاتا ہے ، نہ اوروںکو سمجھایا جاتا ہے۔ یہی سلوک بھٹی صاحب مرحوم کیساتھ کیا گیاکہ انہوں نے اپنی تصانیف میں جو خزانے دبائے ، انکی طرف کسی نے توجہ ہی نہ کی ، اورمغز کو چھوڑ کر چھلکے کے پیچھے لگ گئے ۔ آئیے قارئین! ہم آپ کو صرف اسحاق بھٹی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے قلم سے ان تاجدار تصوف ہستیوں کے تذکرے اور بھٹی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی کتابوں سے متعارف کرواتے ہیں جن کو پڑھتے ہی آپ یقیناً پہلو بدلنے پر مجبور ہوجائیں گے۔ ہاں یہ ضرور یاد رکھئے گا کہ بھٹی صاحب رحمۃ اللہ علیہ ان متصوف بزرگوں کا اور اسلاف کا تذکرہ کرکے نہ مشرک ہوئے ،نہ ملحد ، نہ بدعتی۔ بلکہ انہوں نےکامل ایمان کی زندگی گزاری اور کامل ایمان والی موت پائی اور کامل ایمان والی روشن قبر پائی۔دعا ہے کہ اللہ جل شانہ اس حقیر سعی کو ساری انسانیت کیلئے کامل ایمان ، کامل اخلاص، کامل عافیت اور کامل برکت کا ذریعہ بنائے۔ آمین
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں